Friday, March 11, 2011

     

افسوس اس قوم پر

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
یہ خلیل جبران کی ایک نظم کا اقتباس ہے جو اس نے 1934ء میں لکھی تھی۔ جبران لبنان کا رہنے والا تھا اور عین ممکن ہے کہ یہ نظم اپنے وطن کے حالات بلکہ حالاتِ زار کی نشان دہی کرتی ہو، لیکن یہ آج کے حالات پر یوں منطبق ہوتی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ نظم ملاحظہ فرمائیے:
میرے دوستو اور ہم سفرو
افسوس اس قوم پر جو یقین سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ایسا کپڑا پہنے جسے اس نے خود بنا نہ ہو
جو ایسی روٹی کھائے جسے اس نے اگایا نہ ہو
ایسی شراب پیےجو اس کے اپنے انگوروں سے کشید نہ کی گئی ہو
افسوس اس قوم پر جو دادا گیر کو ہیرو سمجھے
اور جو چمکیلے فاتح کو سخی گردانے
افسوس اس قوم پر جو خواب میں کسی جذبے سے نفرت کرے
لیکن جاگتے میں اسی کی پرستش کرے
افسوس اس قوم پر جو اپنی آواز بلند کرے
صرف اس وقت جب وہ جنازے کے ہم قدم ہو
ڈینگ صرف اپنے کھنڈروں میں مارے
اور اس وقت تک بغاوت نہ کرے
جب تک اس کی گردن مقتل کے تختے پر نہ ہو
افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں
اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں
افسوس اس قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو
اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو قوم کہتا ہو
~~ خلیل جبران 1934ء~~
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ خلیل جبران کی اسی نظم سے متاثر ہو کر مشہور نراجیت پسند امریکی شاعر لارنس فرلنگیٹی نے 2007ء میں ایک نظم لکھی، جو بلاتبصرہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے:
افسوس اس قوم پر جس کے عوام بھیڑیں ہوں
اور جنھیں اپنے ہی چرواہے گم راہ کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں
اور دانا خاموش
جہاں منافق ہوا کے دوش پر راج کرتے ہوںافسوس اس قوم پر جو آواز بلند نہیں کرتی
مگر صرف اپنے فاتحوں کی تعریف میں
اور جو داداگیروں کو ہیرو سمجھتی ہے
اور دنیا پر حکومت کرنا چاہتی ہے
طاقت اور تشدد کے بل پر
افسوس اس قوم پر
جو صرف اپنی زبان سمجھتی ہے
اور صرف اپنی ثقافت جانتی ہے
افسوس اس قوم پر جو اپنی دولت میں سانس لیتی ہے
اور ان لوگوں کی نیند سوتی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں
افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر
جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے
میرے ملک
میری سرزمینِ آزادی
تیرے آنسو!
شکریہ: وائس آف امریکہ

1 comment: