Friday, May 27, 2011

خاص لوگ


 سا غر صدیقی
                    میکدے کی حدود میں ہوں گے
                     کیا  بتا ئیں پتہ فقیر و ں  کا
    سا غر صدیقی 1928 میں پیدا ہوے-
اصل خاندان ان کا انبالے سے تھا اور وہ پیدا بھی انبالے میں ہوئے۔ سال 1964ء کا تھا۔ گھر میں ہر طرف افلاس اور نکبت کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں تعلیم کا کیا سوال! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ‍ پڑھا انہیں سے اس کے بعد شاید ورنیکلر مڈل کے کچھ‍ درجے بھی پاس کر لیے ہوں۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر [[امرتسر] کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دوکاندار کے وہاں ملازم ہو گئےجو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ‍ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دوکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے۔ لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اتنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس  پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا  
قدرتا اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں اس کی مانگ بڑھ‍ گئی۔ اب اس نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا اور بعض سرپرست احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ اسے اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ گھر والے بے شک ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ لیکن اسے ان کی کیا پروا تھی، اس نے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ انہی دنوں ساغر کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ
پاکستان کا قومی ترانہ لکھہ کر اسے فلمایا جانے چنانچہ پورا کرنے کیلیے ساغر نے
فدا شآہ جہاں اور نعیم ہَا شمی کے ساتھہ مل کر ایک ترانہ لکھا اور اسے اپنی آواز 
میں فلمایا اس طرح وہ پاکستان کے پھلے غیر سرکاری قومی ترانہ کے خالق بنے 
  وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہو گنے ، بلکہ بعض جریدے تو انہی  کی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب (ف: اپریل 1974ء) بر سر اقتدار آگئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا؛
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ‍ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ‍ گچھ‍ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ‍ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا ذیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے ذیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
ساغر صدیقی بقلم خود

اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ‍ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا:

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
شاید کہ تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
                                                             جاری ہے

Tuesday, March 29, 2011

 1965 
            
           ویسے تو ہر صبح ہی خوشگؤار  ہوتی ہے مگر آ ج  تو صبح 
اٹھتے ہی دیکھا کہ صبح کی ہوا میں روشنی میں کچھ اور ہی بات تھی
 ویسے تو یہ بھی باقی میچوں کی ترا ہی ہے مگر اس بار ملک کا
بچہ بچہ بڑھ چڑھ کر دعا ؤ ں میں شآمل ہے . ایک عجب سی کیفیت
ہے بہت عر صے کے بعد یہ سماں نظر آیا کہ پورا ملک یکجا اور یکجان
ہے . آج تو جس شخص نے کبھی ٹی وی کا منہ نہیں دیکھا اور کرکٹ
 میں کبھی دلچسپی نہیں لی وہ بھی آج مِیچ کے لیے دعا گو ہے . شہر 
قصبوں  گاؤں  میں ہر جگہ بس ایک ہی بات ہے کہ بس پاکستان جیت جاتے
 ایسا ہی کچھ منظر 1965  کی جنگ کے دنوں میں تھا 
                   دیکھھ  کر ساحل آج  جذبہ یہ  قوم کا
                    یاد آ رہا ہے مجھے وہ دن 1965 کا  
 کس طرح عوام 1965  میں یکجا ہو گئی تھی اور فوجی جوانوں کے پیچھے
سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو گئی تھی 


        اسی طرح آج بھی جب کہ پاکستان انڈیا کا سیمی فآ ئنل ہو رہا ہے
 تو ایک بار پھر عوام یکجا ہو گئی ہے



Friday, March 25, 2011

Friday, March 18, 2011


      خا ص لو گ
     کچھ باتیںان کی بارے میں جنھیں میں دل کی گہرایوں سے مانتا ہوں-یہ وہ شخصِِیت ہیں جنہوں نےزندگی بھر اپنے الفاظ کی جادو سےلوگوں کےدلوں کو
نہ صرف جیتا بلکہ انکے معا شرتی مسائل کو اس انداز سے اپنی شاعری میں 
   شا مل کرتے کہ طنز و مزاح میں ہی ان کے زخموں کی تسکین کر دیتے -

  
انور مسعود                                
      یہ بڑا ظالم آدمی ہے....اڑتی ہوئی آوازوں کو پکڑ لیتا ہے - پھر ان آوازوں کو منجمد کر دیتا ہے اور ان منجمد آوازوں کو جب چا ہے تیلی دکھا دیتا ہے اور وہ پھر اڑ نے لگتی ہیں لیکن نئے سروں اور انوکہے رنگوں کی ساتھہ ....تتلیوں
کی طرح -
اس طلسم کار کی کرشمہ سازی کا ایک بھید یہ ہے کہ مو ضوعا ت کے چنا ؤ کے ساتھہ ساتھہ الفاظ کے خزانوں پر بیٹھے ہوئے سانپوں
کو بھی سدھا رکھا ہی اور جب بھی اس کے ابرو میں جنبش ہوتی ہے یہ ناگ
شب چراغ ا گل دیتے ہیں جو ہر سخن طراز کے بس کی بات نہیں-
       انکی ایک نظم پِیش خدمت ہےجس میں انہوں نے کس دلچسپ انداز سے
سیاسی و معا شرتی پہلو کی عکاسی کی ہے-
           
                           ہے آپ کے ہونٹوں پہ  جومسکان وغیرہ
                            قربان  گتے  اس  پہ د ل و  جا ن  وغیرہ
                                        بلی تو یو نہی مفت  میں بدنام  ہوئی  ہے
                                        تھیلے میں تو کچھہ اورتھا سامان وغیرہ
                           بے حرص و غر ض فر ض ادا کیجیے اپنا
                           جس طرح  پولیس کرتی  ہے چالان  وغیرہ
                                           اب ہوش نہیں کوئی کہ بادام کہاں ہے  
                                           اب  اپنی  ہتھیلی  پہ ہیں دندان  وغیرہ 
                           کس ناز سے وہ نظم کوکہہ دیتے ہیں نثری
                           جب اس کے خطا ہوتے ہیں  اوذان  وغیرہ 
                                           جمہوریت اک طرذ حکومت ہےکہ جس میں
                                            گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
                            ہرشرٹ کی بشرٹ بنا ڈالی ہے انور                             
                             یوں چاک کیا ہم نے گریبان وغیرہ

Friday, March 11, 2011

     

افسوس اس قوم پر

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
یہ خلیل جبران کی ایک نظم کا اقتباس ہے جو اس نے 1934ء میں لکھی تھی۔ جبران لبنان کا رہنے والا تھا اور عین ممکن ہے کہ یہ نظم اپنے وطن کے حالات بلکہ حالاتِ زار کی نشان دہی کرتی ہو، لیکن یہ آج کے حالات پر یوں منطبق ہوتی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ نظم ملاحظہ فرمائیے:
میرے دوستو اور ہم سفرو
افسوس اس قوم پر جو یقین سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ایسا کپڑا پہنے جسے اس نے خود بنا نہ ہو
جو ایسی روٹی کھائے جسے اس نے اگایا نہ ہو
ایسی شراب پیےجو اس کے اپنے انگوروں سے کشید نہ کی گئی ہو
افسوس اس قوم پر جو دادا گیر کو ہیرو سمجھے
اور جو چمکیلے فاتح کو سخی گردانے
افسوس اس قوم پر جو خواب میں کسی جذبے سے نفرت کرے
لیکن جاگتے میں اسی کی پرستش کرے
افسوس اس قوم پر جو اپنی آواز بلند کرے
صرف اس وقت جب وہ جنازے کے ہم قدم ہو
ڈینگ صرف اپنے کھنڈروں میں مارے
اور اس وقت تک بغاوت نہ کرے
جب تک اس کی گردن مقتل کے تختے پر نہ ہو
افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں
اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں
افسوس اس قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو
اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو قوم کہتا ہو
~~ خلیل جبران 1934ء~~
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ خلیل جبران کی اسی نظم سے متاثر ہو کر مشہور نراجیت پسند امریکی شاعر لارنس فرلنگیٹی نے 2007ء میں ایک نظم لکھی، جو بلاتبصرہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے:
افسوس اس قوم پر جس کے عوام بھیڑیں ہوں
اور جنھیں اپنے ہی چرواہے گم راہ کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں
اور دانا خاموش
جہاں منافق ہوا کے دوش پر راج کرتے ہوںافسوس اس قوم پر جو آواز بلند نہیں کرتی
مگر صرف اپنے فاتحوں کی تعریف میں
اور جو داداگیروں کو ہیرو سمجھتی ہے
اور دنیا پر حکومت کرنا چاہتی ہے
طاقت اور تشدد کے بل پر
افسوس اس قوم پر
جو صرف اپنی زبان سمجھتی ہے
اور صرف اپنی ثقافت جانتی ہے
افسوس اس قوم پر جو اپنی دولت میں سانس لیتی ہے
اور ان لوگوں کی نیند سوتی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں
افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر
جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے
میرے ملک
میری سرزمینِ آزادی
تیرے آنسو!
شکریہ: وائس آف امریکہ